اسرائیلی حکومت نے کچھ عرصے کی خاموشی کےبعد خلیجی ریاست قطر اور ترکی پر سفارتی حملے دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔
عبرانی اخبار "معاریف" کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت ترکی اور قطر دونوں کو دنیا بھری میں "اسلامی دہشت گردوں" کا پشتیبان قرار دے رہا ہے۔ ان گروپوں میں سر فہرست اسلامی تحریک مزاحمت حماس کا نام شامل ہے جس ان دونوں ملکوں کی بھرپور مدد حاصل ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے اپنے وزراء کو ہدایت کی ہے کہ وہ ترکی اور قطر کے خلاف دوبارہ سخت زبان میں بیانات جاری کرنا شروع کر دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی دوہرے معیار پر چل رہا ہے۔ ایک جانب وہ مغرب کی حمایت کرتا ہے اور مغربی ممالک کے ساتھ معاہدے کر رہا ہے اور دوسری جانب دنیا بھر میں انتہا پسند اسلام کو بھی کھل کر سپورٹ کرتا ہے۔ ترک حکومت کی اس دوغلی پالیسی
کو بے نقاب کیا جائے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق 4 سال قبل غزہ کی پٹی میں امدادی سامان لے کر آنے والے ترک بحری جہاز مرمرہ پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد اسرائیلی حکومتیں ترک حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں، لیکن حالیہ کچھ عرصے کے دوران تل ابیب نے ترکی کے حوالے سے سخت بیان بازی سے گریز کر لیا تھا۔
اسرائیلی اخبار مزید لکھتا ہے کہ حماس اور عراق اور شام میں اسلامی خلافت کے لیے سرگرم "داعش" کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کو ترکی اور قطر جیسی حکومتوں کی معاونت حاصل ہے۔ گو کہ ترکی کی حکومت اعلانیہ طور پر داعش کی حمایت نہیں کر رہی ہے لیکن حماس کو کھلے عام مدد فراہم کرتی ہے۔ خلیجی ریاست قطر کی بھی یہی پالیسی ہے اور دونوں ملک انتہا پسند گروپوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔